بعدِ خدا بزرگ ہے عالم میں جس کی ذات

بعدِ خدا بزرگ ہے عالم میں جس کی ذات

ایسا پیمبروں کا پیمبر ملا مجھے


مختارِ کائنات کی چوکھٹ پہ بے گماں

جود و سخا و فیض کا ساگر ملا مجھے


دل کے مکاں میں کیوں نہ اجالا ہو چار سو

طیبہ کا جب کہ ماہِ منوّر ملا مجھے


نازاں ہوں اپنی خوبیِ قسمت پہ دم بدم

کون و مکاں کا مالک و سرور ملا مجھے


ہے جس کی یاوری کا یہ محتاج کل جہاں

فضلِ خدا سے ایسا ہی یاور ملا مجھے


جچتے نہیں نگاہ میں خورشید، مہر و ماہ

طیبہ کا جب سے خاور و اختر ملا مجھے


دیکھا ہے جس نے گنبدِ خضریٰ کو بار بار

قسمت کا اپنی وہ تو سکندر ملا مجھے


ہے جس کے سر پر تاجِ فضیلت سجا ہوا

رکھنے کو اس کے روضے پہ یہ سر ملا مجھے


خاک درِ نبی کی طرح جس میں ہو مہک

دنیا میں ایسا مشک، نہ عنبر ملا مجھے


قسمت پہ اپنی ناز کروں کیوں نہ میں طفیلؔ

مرشد ملا تو فاضلِ ازہر ملا مجھے

کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت

دیگر کلام

ہیں خوب گل و غنچۂ تر خار ہے دلکش

جو روشنی حق سے پھوٹ کر جسم بن گئی ہے، وہی نبی ہے

شاہ کی تصویر ہر درپن میں ہے

کملی والیا شاہ اسوارا ، ائے عربی سلطانان

تم سے کیفِ حضوری بیاں کیا کروں

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

جادۂ ہستی کا ہے دستور سیرت آپ کی

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

کی پُچھدا ایں حال نبی دیاں سیراں دے