بیمارِ محبت کے ہر درد کا چارا ہے

بیمارِ محبت کے ہر درد کا چارا ہے

سامانِ شفاعت کا روضے کا نظارا ہے


محبوبِ دو عالم کی رحمت ہی زمانے میں

ہر دکھ کا مداوا ہے ہر غم میں سہارا ہے


اس ہادیِٔ برحق کی تعلیم کے کیا کہنے

جس ذات پر اللہ نے قرآن اتارا ہے


اللہ نے سُن لی ہے فریاد سوالی کی

سرکارِ مدینہ کو جس نے بھی پکارا ہے


مرکز ہے نگاہوں کا روضہ ہی مدینے میں

گنبد کا نظارا ہی ہر آنکھ کا تارا ہے


اپنا تو وظیفہ ہے توصیف محمدؐ کی

ہر گام ظہوریؔ یہ معمول ہمارا ہے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

هفضلِ رب سے طیبہ آیا، میں کہاں طیبہ کہاں

آئی بہارِ زیست مُقدّ ر سَنبھل گئے

میں سیہ کار خطا کار کہاں

جست میں عرش تک فاصلہ ہو گیا

کیونکر نہ ہو مکے سے سوا شانِ مَدینہ

دل جھوم اٹھا اَور چلنے لگی

شاہوں کے سامنے نہ سکندر کے سامنے

لٹاتا ہے سخا کا جو خزانہ سب سے اچھا ہے

یا نبیؐ صلِ علیٰ وردِ زباں ہو جائے

ہیں سب اہلِ سنّت غلامِ محمدﷺ