دامن در نبی پہ بیٹھا ہوں میں بچھائے
للہ کوئی مجھ کو اس در سے نہ اٹھائے
ہو سامنے مدینہ مجھے جب خیال آئے
انہی چاہتوں میں آقا میری عمر بیت جائے
ترا جب خیال آئے خوشبو میں بس کے آئے
رہیں ساتھ ساتھ میرے تری رحمتوں کے سائے
یہی آرزو ہے میری یہی دل کی ہے تمنا
ترا ذکر کرتے کرتے میری عمر بیت جائے
ہو جس کے دل میں الفت محبوب کبریا کی
دوزخ کی آگ کیسے اس شخص کو جلائے
سر بزم کہہ رہا تھا درویش اک خدا کا
اسے کیوں نہ گائے دنیا جو نبی کے گیت گائے
طوفان غم کی زد میں جو شخص آگیا ہو
نعتوں کی ایک محفل وہ اپنے گھر سجائے
میں چلا در نبی پر جہاں کوئی غم نہیں ہے
جسے دیکھنی ہو جنت مرے ساتھ ساتھ آئے
ان مے کشوں پر مجھ کو آئے نہ رشک کیسے
جس جس کو مرا ساقی نظروں سے مے پلائے
ہے دعا میری نیازی ہو وقت چاہے کیسا
ناطہ مرا نبی سے کبھی ٹوٹنے نہ پائے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی