دعا ہے پھر مدینے کا سفر ہو
نبی کے در پہ دیوانے کا سر ہو
نہ کیوں وہ دو جہاں میں معتبر ہو
مرے آقا تری جس پر نظر ہو
تمنا ہے مرے دل کی خدایا
مرا دل سرور عالم کا گھر ہو
صبا کہنا رہوں میں دور کب تک
ترا جب بھی مدینے میں گزر ہو
مجھے مل جائے پھر اذن حضوری
کرم سرکار کا بار وگر ہو
مرا آقا ہے وہ لج پال آقا
جسے ہر حال ہر اک کی خبر ہو
جلائے کیوں اسے نارِ جہنم
تری رحمت کے جو زیر اثر ہو
لگی ہے جو لگن عشق نبی کی
خدایا تیز تر سے تیز تر ہو
در محبوب ہے کعبہ کا کعبہ
نہ کیوں سجدہ محبت کا ادھر ہو
غلام ان کے جہاں جس حال میں ہیں
نہیں ممکن کہ آقا بے خبر ہو
میں اپنا حال خود ان کو سناؤں
نہ کوئی درمیاں میں نامہ بر ہو
سوالی ہوں مرے مالک کرم کا
کرم آل نبی کے نام پر ہو
مرے خوابوں میں بھی آجائیں آقا
دعاؤں میں مری اتنا اثر ہو
تجھے توفیق بخشی ہے خدا نے
جہانِ غم میں خوشیوں کی سحر ہو
تمنا ہے نیازی دل کا سجدہ
نبی کے آستاں پر عمر بھر ہو
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی