اِسی اُمید پہ تنہا چلا ہوں سوئے حرم

اِسی اُمید پہ تنہا چلا ہوں سوئے حرم

ملیں گے آپؐ کے نقشِ قدم، قدم بہ قدم


نفس کی آمد و شد کا عجیب ہے عالم

ہے ایک سانس مدینہ تو ایک سانس حرم


میں کیا بتاؤں تمہیں وجہِ گریۂ پیہم

بہت ہے اُنؐ کی مرے حال پر نگاہِ کرم


گنا ہگاروں کی ڈھارس بھکاریوں کا بھرم

خوشا وہ دامنِ رحمت زہے وہ دستِ کرم


خُدا کرے کہ مری رُوح میں اُتر جائے

وہ نُورِ شمعِ ہدایت‘ وہ روشنی کا حرم


دیارِ پاک شہِؐ دیں میں سر کے بل چلئے

کہ پڑ نہ جائے رہِ شوق میں قدم پہ قدم


حنیفؔ شاعِر دربارِ مُصطفٰؐے ہوں میں

عطا ہُوئے ہیں مرے فِکر و فن کو لوح و قلم

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

جب بھی حصار غم کا مجھے توڑنا پڑا

نصِ قرآن سے الفاظ چن کے

جب سے دل کی صدا یا نبیﷺ ہو گئی

نورِ ازلی چمکیا غائب ہنیرا ہوگیا

زیبِ فرشِ جہاں رسُولِ خُدا

مرا مدّعا ہیں مدینے کی گلیاں

حقیقت آپ کی حق جانتا ہے

روز عاشور کی یہ صبح عبادت کی گھڑی

محمد مصطفیٰ آئے در و دیوار سج گئے نے

ہم درد کے ماروں کا ہے کام صدا کرنا