جب بھی نعتِ حضورؐ کہتا ہُوں

جب بھی نعتِ حضورؐ کہتا ہُوں

ذرّے ذرّے کو طُور کہتا ہُوں


شامِ بطحا کی زَر فشانی کو

مطلعِ صُبح نُور کہتا ہُوں


بوریا جو تری عنایت ہے

اس کو تخت سمور کہتا ہُوں


رِند اور مدحتِ نبیؐ یارو

شانِ ربِّ غفور کہتا ہُوں


تشنگی اور یادِ کربل کو

جَامِ کیف و سُرور کہتا ہُوں


ایک اُمّی نبیؐ کو اے ساغرؔ

تاجدارِ شعُور کہتا ہُوں

شاعر کا نام :- ساغر صدیقی

کتاب کا نام :- کلیاتِ ساغر

دیگر کلام

پہنچ گیا جو تمہارے در پر

اب کیسے کہیں کیا کہیں اور کیا نظر آیا

شفیع الوریٰ تم سلامٌ علیکم

میرے سنِ شعور کی جب سے کُھلی ہے آنکھ

تھی جس کے مقدر میں گدائی تیرے در کی

پیا کو پتیاں لکھ لکھ بھیجوں تجھ بن رہا نہ جائے

ہے آرزو کہ مدحتِ خیرالبشر کریں

سدا مدینے نوں یاد رکھیں تے ہور سارے مکان بھل جا

زندگی دا مزا آوے سرکار دے بوہے تے

نعتِ جامیؒ مع پنجابی ترجمہ