جب گرے، کوئی نہ آیا تھامنے

جب گرے، کوئی نہ آیا تھامنے

آبرو رکھ لی نبیؐ کے نام نے


کر رہا ہوں ذکر میں سرکارؐ کا

گنبدِ خضرا ہے میرے سامنے


میری آنکھوں میں ستارے بھر دیئے

شہرِ بطحا کی سہانی شام نے


منتشر تھے جو انہیں یکجا کیا

رحمتِؐ عالم کے اک پیغام نے


حشر میں سب کی مٹائی تشنگی

ساقیء کوثرؐ کے شیریں جام نے


ہے ظہوریؔ پر کرم محبوب کا

جو دیا ہے پیار خاص و عام نے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

ہاتھ میں دامانِ شاہِ دو جہاں رکھتا ہوں میں

الصلٰوۃ و السلام اے غایتِ صبحِ ظہور

کیوں پھرتی ہے کھولے ہوئے بالوں کو بھلا شام

میں چُپ تھا ہو رہی تھی مرے ترجماں کی بات

وہ تو الطاف پہ مائل ہیں عدو کی بھی طرف

بگڑی ہوئی بنتی ہے ہربات مدینے میں

یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے

مصطفیٰ خیرالوریٰ ہیں آپ ہی شاہِ زمن

اک اچھی نعت ضروری ہے زندگی کے لیے

واہ سوہنیاں من موہنیاں اللہ دا توں اللہ تیرا