یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے

یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے

مدینے کا سفر یا رب مری تقدیر ہو جائے


ہمیشہ حاضری ہوتی رہے آقا کی چوکھٹ پر

اشارہ آپ فرما دیں تو کیوں تاخیر ہو جائے


سمو لُوں اپنی آنکھوں میں اُجالا سبز گنبد کا

مری تو زندگی میں ہر طرف تنویر ہو جائے


بناؤں دل کے کاغذ پر میں نقشہ شہرِ طیبہ کا

ہمیشہ کے لئے محفوظ یہ تصویر ہو جائے


ثنا گوئی میں گزرے زندگی آقا کی نگری میں

بڑی ہی خوبصورت خواب کی تعبیر ہو جائے


شہِ والا یہ فرما دیں ،بہت ہی خوبصورت ہے،

کوئی تو نعت ایسی ناز سے تحریر ہو جائے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

شاہوں کے سامنے نہ سکندر کے سامنے

مونسِ بے کساں کی آمد ہے

اے صاحبِ شوکت صل علیٰ

میں دیکھوں نعت کا حُسن و جمال

بس درودوں کی ہی تکرار ہے میرے آقا

مُبَارَک ہو حبیبِ ربِّ اَکبر آنے والا ہے

نبی کا ذکر کرو تو سکون ملتا ہے

مِرا جہان بھی تُو، تو ہی عاقبت میری

یارب ترے حبیب کی ہر دم ثنا کروں

کتابِ زیست کا عنواں وہ صاحبِ معراجؐ