جس سے ہے بحرِ جاں انوار کا تلاطم

جس سے ہے بحرِ جاں انوار کا تلاطم

محبوبؐ ِ کبریا کا وہ زیرِ لب تبسّم


اُس عابد ِ حرا کی ترتیل و خامشی پر

ّقرباں ہیں سب ترنم ، صدقے ہیں سب تکّلم


تھے محوِاستراحت، اِ سرا کی رات حضرتؐ

جبریلؑ کہہ رہے تھے کتنے ادب سے قُم قُم


اُڑنے کو پر جو کھولے، رہوار ِ مصطفؐےٰ نے

حیرت میں تھے فرشتے اور کائنات گُم سُم


ہم بے لیاقتوں کا سارا بھرم ہے تُم سے

ہم بےبضاعتوں کا ایک آسرا ہو بس تُم


اُترا حریم ِ دل میں تائبؔ وہ ماہِ طیبہ

پھر ہوگئے فروزاں نوکِ مژہ پہ انجم

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

لگتا ہے دور رہ کے درِ مصطفےٰ سے یوں

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

دل بہ کُوئے تو یا رسوؐلَ اللہﷺ

حرا سے پھوٹی پہلی روشنی ہے

سب اندھیروں کو مٹانے کےلیے آپ آئے

فلک سے اُونچا مقام میرا ہو یا مُحمّدؐ

مطلع ہستی کے نور اولیں آنے کو ہیں

میٹھے مدینے میں بلا، اے آخری نبی

میں صرف حرفِ تمنا ہوں یا رسولؐ اللہ

حمتِ نورِ خدا میرے نبیؐ