کرتے ہیں عرض حال زبانِ قلم سے ہم

کرتے ہیں عرض حال زبانِ قلم سے ہم

یوں بھیک مانگتے ہیں امامِ اُمم سے ہم


دیکھیں ہماری بات کا ملتا ہے کیا جواب

بیٹھے ہیں لو لگائے نگاہِ کرم سے ہم


دربارِ مصطفیٰ ﷺ میں ضروری ہے احتیاط

افسانہ کہہ رہے ہیں فقط چشمِ نم سے ہم


گلدستہ اِک سجانا ہے نعتِ رسول ﷺ کا

کچھ پھول چن لائے ہیں باغِ حرم سے ہم


روکیں ہماری راہ حوادث کی کیامجال

رکھتے ہیں ربط صاحبِ لوح و قلم سے ہم


لے کر چراغ ہاتھ میں عشقِ رسول ﷺ کا

مردانہ وار گزرے ہیں راہِ ظلم سے ہم


وہ جن کا نام سیدِ خیر الانام ہے

وابستہ ہیں انہیں کے نقوشِ قدم سے ہم


اقبؔال ہم کو فکر نہیں روزِ حشر کی

مانوس ہیں مزاجِ شفیعﷺ الامم سے ہم

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

گو ہوں یکے از نغمہ سرایانِ محمد ﷺ

نہ اِس جہاں میں نہ اُس جہاں میں

لب پر ہم ان کا ذکر سجاتے چلے گئے

کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے

میرے سرور میرے دلبر

پر نور نہ ایماں کی ہو تصویر تو کہیے

یہ دِل عرشِ اَعظم بنا چاہتا ہے

مدینے والے آقا شافع روز جزا ٹھہرے

خامۂ اشفاق ہے مبہوت فن سجدے میں ہے

ہر طرف نُور پھیلا ہوا دیکھ لوں