خوابیدہ تھا بیدار ہوا دہر کا طالع
دنیا میں ہوئے جلوہ نما رحمتِ واسع
کیا جانیں خرد والے کہ جس درجہ جہاں میں
سودائے جنوں عشقِ پیمبر میں ہے نافع
کیوں امتِ عاصی ہو پریشاں سرِ محشر
امت کے لیے حشر میں سرکار ہیں شافع
چھٹ جائیں گے سب ابرِ بلائے غمِ دوراں
بطحا میں ہویدا ہوئے آلام کے دافع
تبدیل نہ ہو پائے گا تا حشر وہ ہرگز
آقاؐ نے دیا نظمِ جہاں بانی وہ جامع
کونین میں آقاؐ تھے مرے ساجدِ بے مثل
کوئی نہ ہوا دہر میں سرکار سا راکع
جاری ہیں جہاں اب بھی عنایات کے دریا
دربارِ کریمی وہ مدینے میں ہے واقع
کیا کوئی گھٹا پائے گا شانِ شہِ والا
جب خود ہے خدا آپ کے درجات کا رافع
آئے تری آغوش میں سرکارِ دو عالم
اے دائی حلیمہ تری قسمت ہوئی ساطع
شیدائے نبیؐ کرتے نہیں کارِ غلط وہ
ازروئے شریعت ہے جو اسلام میں مانع
جب دفترِ اعمال کھلے روزِ قیامت
رسوائی سے احسؔن کو بچانا مرے شافع
شاعر کا نام :- احسن اعظمی
کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت