دل میں پیارے نبی کی ہیں یا دیں لب پہ ہو اللہ ہو کی صدا ہے

دل میں پیارے نبی کی ہیں یا دیں لب پہ ہو اللہ ہو کی صدا ہے

دونوں عالم کی دولت ہے گھر میں یہ کرم گر نہیں ہے تو کیا ہے


جب سے کی ہے نبی کی گدائی مل گئی مجھ کو ساری خدائی

میرے ساقی نے ایسی پلائی اپنی قسمت پر دل جھومتا ہے


یہ سمے نوری نوری سہانے گونجے صلے علی کے ترانے

لوٹ لو رحمتوں کے خزانے عاصیو محفل مصطفیٰ ہے


شان محبوب الله اکبر نجم و طه مدثر منور

اللہ اللہ حسن پیمبر جس پر ساری خدائی فدا ہے


تجھ سے ظاہر ہوئی کبریائی تو نہ ہوتا نہ ہوتی خدائی

شان ہر اک نبی نے ہے پائی آپ کی شان سب سے جدا ہے


سن فسانہ کبھی غمزدوں کا صدقہ دے مجھ کو بھی لاڈلوں کا

کیوں میں در در پہ دامن بچھاؤں یہ گدا تیرے در کا گدا ہے


بڑھ کے شاہی سے ان کی گدائی ان کی ہے دو جہاں میں دہائی

اس پر راضی خدا کی خدائی جس پہ راضی حبیب خدا ہے


سب کا غنچۂ دل اب کھلے گا جو بھی مانگے گا کوئی ملے گا

ان کی محفل سے مایوس اٹھ کر آج تک نہ کوئی بھی گیا ہے


پار ہوں حسرتوں کے سفینے اب تو بلواؤ آقا مدینے

غم کے مارے نیازی کو آقا بس تیرے نام کا آسرا ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

بس یہی اہتمام کرتے ہیں

واہ سوہنیاں من موہنیاں اللہ دا توں اللہ تیرا

رسول میرے مِرے پیمبر درود تم پر سلام تم پر

کمی جو آنے نہ دے محبت میں

نعتِ سرکار میں سُناتا ہُوں

خدا نے اس قدر اُونچا کیا پایہ محمد کا

سونے دیتی نہیں فرقت کی یہ ریناں ہم کو

کملی والے میں صدقے تیرے شہرے توں

شاہد ہے خُدا بعد میں کائنات بنی ہے