کیا بیاں ہو شان نظمی گلشن برکات کی

کیا بیاں ہو شان نظمی گلشن برکات کی

کون آنکے قدرو قیمت اس حسیں سوغات کی


ارضِ مارہرہ کی رونق میں لگے ہیں چار چاند

دیکھئے تو نکہتیں اس افتتاحی رات کی


منبرِ نور کا ہر زاویہ نورانی ہے

نور و نکہت کی ہر اک سمت فراوانی ہے


آپ جب پہنچیں یہاں بابِ حسن سے ہو کر

یوں لگے سایہ فگن رشتہء روحانی ہے


آج ہر گام پہ یہ نور سا کیسا بکھرا

سارا ماحول نظر آتا ہے ستھرا ستھرا


تاج علما سے جو منسوب ہوا منبرِ نور

نوری کے فیض سے ہر گوشہ ہے نکھرا نکھرا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

دل ونگاہ کی دُنیا نئی نئی ہوئی ہے

شاہِ کونین کا سنگِ در چھو لیا

کہکشاؤں کے سحر زیرِ قدم رہتے ہیں

بنے دیوار آئینہ ترے انوار کے باعث

کیے کون و مکاں روشن تری تنویر کے قرباں

ماہِ روشن بہارِ عالم

ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی

سانول سوہنا یار یار انوکھڑا

بُراقِ فکر ہے گردوں نو رد آج کی رات

سر تا قدم برہان ہو