کونین کے ہاتھوں میں مُحمّؐد کے عَلَم ہیں

کونین کے ہاتھوں میں مُحمّؐد کے عَلَم ہیں

پہنچے نہ جہاں ذہن وہاں اُن کے قدم ہیں


صدیاں ہی نہیں عہدِ رسالت کی کنیزیں

آفاق بھی سب حاشیہ بردارِ حرم ہیں


قرآن کا پڑھنا بھی زیارت ہے نبی کی

اوصاف ہیں تحریر خدوخال رقم ہیں


تاریکیِ پَیہم ہو تو وہ صُبح کا تارا

سُوکھا ہُوا موسم ہو تو وہ ابرِ کرم ہیں


مَیں اُن میں فنا ہو کے اُنھیں دیکھ رہا ہُوں

وہ زندہ سلامت پسِ دیوارِ عدم ہیں


اندر بھی مرے دفترِ سرکار کُھلا ہے

اس عرش کی تحویل میں بھی لوح و قلم ہیں


کِتنا ہی مَیں تقسیم ہُوں ‘ حاصل وہی میرا

کِتنی بھی خطائیں ہوں عنایات سے کم ہیں


آنکھیں بھی اُنھیں دیکھتی رہتی ہیں مظفّؔر

سانسیں بھی اُنہی قدموں کی آواز میں ضم ہیں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

دیگر کلام

لب پہ پھر آئی ہے فریاد رسُول عربی

وہ بصیرت اے خدا! منزل نما ہم کو ملے

نہ تمنا دولتوں کی نہ ہی شہرتوں کی خواہش

پھر یاد جو آئی ہے، مدینے کو بلانے

کوئی عالم نہ کوئی صاحبِ عرفاں نِکلا

پتھر کی پتھر ہی رہتی تیری اگر نہ ہوتی

ہے مرکز مدینہ ہے محور مدینہ

راحت بجاں معطّر وہ دل فزا تھا ہاتھ

پڑھتا ہوں جس طرح میں دیارِ نبی کا خط

تو جو میرا نہ رہنما ہوتا