پڑھتا ہوں جس طرح میں دیارِ نبی کا خط
پڑھتا نہیں ہے کوئی بھی ایسے کسی کا خط
بھیجا ہے اُن کو رات کی پچھلی گھڑی کا خط
کم مائیگی، فسردہ دلی، بے بسی کا خط
یہ ارتقائے ذات کی پہلی نوید ہے
موصول ہو گیا ہے مجھے حاضری کا خط
ٹالے گا بات کیسے خدا اُن کو دیکھ کر
دستِ دعا بنے گا جو روئے نبی کا خط
شہرِ نبی میں ہو گا فرشتو مِرا قیام
پورا وہیں پہ کرنا مِری زندگی کا خط
کر ہی دیا خدا نے عیاں نورِ مصطفٰی
پہنچا کچھ ایسا درد بھرا تیرگی کا خط
رکھنا مِرے کفن میں بطورِ سند اِسے
آلِ نبی کی تا بہ ابد بندگی کا خط
استاد، وہ بھی سیدِ کون و مکان کا ؟
اور وہ جو صرف لاتا رہا ایزدی کا خط ؟
رضوان کو بھی ہو گی خبر اِس حدیث کی
پروانہِ عدن ہے درِ احمدی کا خط
ہے منتظِر نظر کے علاوہ کسے خبر
کیسا دکھائی دیتا ہے اُن کی گلی کا خط
آ جا تبسم اُن کے نگر کو ابھی چلیں
آ جائے کاش میری طرف مُرشِدی کا خط
شاعر کا نام :- حافظ محمد ابوبکر تبسمؔ
کتاب کا نام :- حسن الکلام فی مدح خیر الانامؐ