وہ بصیرت اے خدا! منزل نما ہم کو ملے

وہ بصیرت اے خدا! منزل نما ہم کو ملے

خاک طیبہ میں کسی کا نقش پا ہم کو ملے


رحمۃ للعالمین کے نور سے رخشندہ ہو

ایسا انداز نظر سب سے جدا ہم کو ملے


ہم قیامت کی تپش میں مسکرا اُٹھیں، اگر

سرور دنیا و دیں کا آسرا ہم کو ملے


قرب احمد کے ہزاروں سلسلے رب کریم

ہم پہ جو روشن نہیں وہ مدعا ہم کو ملے


ہم مدینے کی زمیں میں اس طرح مدفون ہوں

خاک پائے مصطفی مس یہ صلہ ہم کو ملے


قرب شاہی کی تمنا اور کشفی؟ الاماں

اے خدا! اُن سے ردا تجھ سے جزا ہم کو ملے

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

درود چشم اور گوش پر کبھی صبا سے سن

تاثیر اسی در سے ہی پاتی ہے مری لے

پاؤگے بخششیں قافلے میں چلو

اَب کوئی لمحہ کوئی پَل کٹتا نہیں درُود بِن

سارے جہاناں نالوں سوہنے دی بستی چنگی

جیہڑے محرم راز حقیقت دے

کہاں جھکی ہے جبین نیاز کیا کہنا

جان و دل سب شمار کرتے ہیں

کرم اللہ کا ہم پر عنایت مصطفیٰ کی ہے

دیارِ نور میں جناں کا باغ رکھ دیا گیا