لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

آپؐ کے اسم گرامی کے سوا کچھ بھی نہیں


آپؐ کی رہ میں بکھر جاؤں میں شبنم کی طرح

میرے ہونٹوں پر بجز اِس کے دعا کچھ بھی نہیں


دوجہاں کی وسعتیں حائل ہیں رستے میں مگر

آپؐ چاہیں تو یہ سارا فاصلہ کچھ بھی نہیں


ہاتھ پھیلائے نہیں اس نے کسی کے سامنے

آپؐ کے خادمِ نے دنیا سے لیا کچھ بھی نہیں


کون سی شے لے کے آوں آپؐ کے دربار میں

میرے دامن میں ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں


کس طرح ہو آپؐ کے وہ مرتبہ سے آشنا

جس کو اپنے ہی تشخص کا پتہ کچھ بھی نہیں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

مصطفے آئے فضاواں مست ہو گیاں

متاعِ نعت ہے جو حشر میں بھی ساتھ رہتی ہے

مینوں لے چلو اوہناں راہواں تے سوہنے

حد غزل کی جسموں تک ہے

مرے آقا عطائیں چاہتا ہوں

اکھیاں کھول تے سہی

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

کیہیا آمنہ مائی حلیمہ نوں سُتے لیکھ جگا لے چُپ کر کے

مہبطِ نور میں ہے نور سے ڈھالی جالی

مصطفی دا آستانہ نور اے