لوح بھی تو قلم بھی

لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب

گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب


عالَمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرّۂ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب


شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقرِ جُنیدؒ و بایزیدؒ تیرا جمالِ بے نقاب


شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب


تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے

عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب


تِیرہ و تار ہے جہاں گردشِ آفتاب سے

طبعِ زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے

شاعر کا نام :- علامہ اقبال

دیگر کلام

یادِ شہِ بطحا میں جو اَشک بہاتے ہیں

میرے ہمدم ناں روؤن توں مینوں ہٹا

بادہء عشق نبی پی کے بھی پیاسیں نہ گئیں

مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں

تجھ بن تڑپ رہے ہیں دونوں جہان والے

جبینِ شاہِ امم رشکِ صد قمر ہوئی ہے

تابع ہے تِرا رستۂِ فردوس کا راہی

مثالی ہر زمانے میں مرے آقا ! ترا جینا

کچھ اور خیالوں میں لایا ہی نہیں جاتا

’’حضور آپ کی سیرت کو جب امام کیا‘‘