میداں میں مانگتا تھا عَدُو اپنے سُر کی خیر

میداں میں مانگتا تھا عَدُو اپنے سُر کی خیر

شر مِٹ گیا جہان سے، خیر البشرؐ کی خیر


اُس رُخ کے سامنے نہیں شمس و قمر کی خیر

اہلِ نظر بھی مانگ رہے ہیں نظر کی خیر


اُن کا کرم ہے میرے لیے عُمر بھر کی خیر

مَیں در بدر کبھی نہ پھرا، اُن کے در کی خیر


سُوئے حجاز مائلِ پرواز ہُوں پھر آج

اے رحمتِؐ تمام! مِرے بال و پَر کی خیر


بے تابیاں اِدھر ہیں اُدھر عالمِ حجاب

ایسے میں اب کہاں دلِ آشفتہ سَر کی خیر


آئے حُضورِؐ پاک تو دنیا بدل گئی

کافور کفر ہوگیا اِس کّر و فر کی خیر


پھر مضطرب ہُوں جلوۂ دیدار کے لیے

تابِ نظر کی خیر ہو، ذوقِ نظر کی خیر


اُن کے بغیر کچھ بھی نہیں کائنات میں

اُن کے کرم سے فرش و فلک، بحر و بر کی خیر


یکتا ہیں دونوں، عالمِ ناز و نیاز میں

میری جبیں کی خیر ہو، اُس سنگِ در کی خیر


کچھ کم نہیں نصیرؔ وہ شمر و یزید سے

مطلوب ہو نہ جس کو محمدؐ کے گھر کی خیر

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

زخم بھر جائیں گے سب چاک گریبانوں کے

مرحبا مرحبا آگئے مصطفےٰ

لب دے اُتے نام نبی دا دل وچ یاد نبی دی

نظر آتے ہیں پھول سب کے سب

تُسیں ہو سب گہنگاراں دے حامی یارسول اللہ

نور حق آپؐ میں کتنا گُم ہے

تضمین برنعتِ حضرتِ مولٰنا جامؔیؒ

اس قدر کون محبّت کا صِلہ دیتا ہے

مجھے بھی لائے گا شوقِ سفر ’’مواجہ‘‘ پر

جاتے ہیں سوئے مَدینہ گھر سے ہم