مسیحا وہ سب سے جدا بن کے آئے

مسیحا وہ سب سے جدا بن کے آئے

کہ مُردہ دلوں کی جِلا بن کے آئے


مجھے نعت نو شہ کی لکھنی ہے کہہ دو

کہ اب بانوئے فن ذرا بن کے آئے


سبھی لوگ بنتے ہیں آنے کے ما بعد

مگر آپ سب کچھ شہا ! بن کے آئے


نبی بن کے آئے تھے پہلے بھی آقا !

مگر آپ سب سے جدا بن کے آئے


کیے گُل ادا تم نے جو خار خُو تھے

وہ باغات کے آئے یا " بَن " کے آئے


تمہارے ہی پیرو ہیں مُنعَم عَلَیھم

ہدایت کا تم راستہ بن کے آئے


کِیا اپنے بلبل کو ہے یاد گُل نے

کبھی تو پیامی صبا بن کے آئے


وہی عکسِ وحدت ہیں کثرت میں شامل

وہ اِمکاں میں واجب نُما بن کے آئے


بتائے تُمہیں نے حقوقِ خواتین

دُکھی کا تمہیں آسرا بن کے آئے


تُمہیں بُو الیتامٰی ،تمہیں بُو الاَرامل

تمہیں بُو المساکیں شہا ! بن کے آئے


امامِ رُسُل کا ہے در وہ جہاں سے

ہر اک مُقتدی مُقتدا بن کے آئے


جسے پیشِ روضہ طلب دید کی ہو

تڑپ میں وہ احمد رضا بن کے آئے


نہ کیونکر بہ فیض ثنائے شہِ عرش

زمینِ معظؔم سَما بن کے آئے


عَطِیّہ تھے سارے نبی اے مُعَظمؔ !

ہَدِیّہ مگر مصطفیٰ بن کے آئے

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

جلوۂ رُوئے نبیؐ مطلعِ انوارِ حیات

ہر ویلے منگاں میں دعاواں کملی والیا

سرور دو عالم کی شان ہے کریمانہ

تجلیات کا گلزار مسجدِ نبوی

مدینہ کے دَر و دیوار دیکھیں

دیارمحبوبؐ کے مسافر ہمیں دعاؤں میں یاد رکھنا

ہر ویلے سوہنے دیاں گلاں ایخو کل کمائی

خوابیدہ تھا بیدار ہوا دہر کا طالع

کروں دم بدم میں ثنائے مدینہ

نبی دیاں رحمتاں دا در مدینہ