مِلا جو اذنِ حضوری پیام بر کے بغیر
میں آگیا درِ اقدس پہ ہم سفر کے بغیر
وفورِ شوق نے یوں مری دست گیری کی
سفر تمام ہوا زحمتِ سفر کے بغیر
انہیں کی چشم کرم کا یہ فیض ہے کہ نہیں
نظارہ مجھ کو ہوا منتِ نظر کے بغیر
ہر اک نفس میں سلام و درود کی خوشبو
ہر ایک گام پہ سجدہ جبیں و سَر کے بغیر
حریم قدس میں آنکھیں بھی با وضو پہنچیں
ہوئی نہ جراءت اظہار چشم تر کے بغیر
یہاں کی دھوپ میں ٹھنڈک ہے ‘ ابرِ رحمت کی
میں زیرِ سایہ ہوں اور سایہ ء شجر کے بغیر
ہر ایک رات ہے اس شہر کی شبِ معراج
زمیں سے تابہ فلک چاندنی قمر کے بغیر
یہاں کچھ اور ہے اندازِ گردشِ ایّام
فضا ہے نور فشاں آمد ِ سحر کے بغیر
میں جانتا ہوں یہ نگری ہے میرے آقاﷺ کی
دُعا یہاں سے پلٹتی نہیں اثر کے بغیر
یہاں سے اٹھ کے میں اقباؔل کیسے گھر جاؤں
سکونِ قلب میسر ہے مجھ کو گھر کے بغیر
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم