مختصر سی مری کہانی ہے
جو بھی ہے ان کی مہربانی ہے
جتنی سانسوں نے نا کا نام لیا
بس وہی میری زندگانی ہے
کیف طاری ہو اشکباری ہو
یہ ہی ماحول نعت خوانی ہے
چشم تر سے سنائیں حال اپنا
خوش بیانی تو آنی جانی ہے
ذکرِ سرکارؐ ہی رہے گا بس
باقی جو کچھ بھی ہے وہ فانی ہے
حبِّ سرکار جس کا جوبن ہو
قابلِ دید وہ جوانی ہے
ان کی الفت بھی دل میں پیدا کر
ان کو صورت اگر دکھانی ہے
دل وہی عشق سے جو ہو معمور
گھر وہی جس میں شادمانی ہے
اک تمنا ظہوریؔ ہے دل کی
نعت ان کی انہیں سنانی ہے
شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری
کتاب کا نام :- توصیف