مختصر سی مری کہانی ہے

مختصر سی مری کہانی ہے

جو بھی ہے ان کی مہربانی ہے


جتنی سانسوں نے نا کا نام لیا

بس وہی میری زندگانی ہے


کیف طاری ہو اشکباری ہو

یہ ہی ماحول نعت خوانی ہے


چشم تر سے سنائیں حال اپنا

خوش بیانی تو آنی جانی ہے


ذکرِ سرکارؐ ہی رہے گا بس

باقی جو کچھ بھی ہے وہ فانی ہے


حبِّ سرکار جس کا جوبن ہو

قابلِ دید وہ جوانی ہے


ان کی الفت بھی دل میں پیدا کر

ان کو صورت اگر دکھانی ہے


دل وہی عشق سے جو ہو معمور

گھر وہی جس میں شادمانی ہے


اک تمنا ظہوریؔ ہے دل کی

نعت ان کی انہیں سنانی ہے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

میں اُس زمانے کا منتظر ہوں زمانہ جب بے مثال ہوگا

اپنی ڈیوڑھی کا بھکاری مجھے کردیں شاہا

جلتا ہوں اُس پہاڑ پہ لوبان کی طرح

محمدؐ کی نعتیں سناتے گزاری

کس کی آنکھیں کس کی ہے ایسی جبیں یا رحمت اللعالمیں

تِرے کرم کا خدائے مُجیب کیا کہنا

کالی کملی والے

آقا ہیں انبیا کے جو سلطان بے مثال

یارب پھر اَوج پر یہ ہمارا نصیب ہو

کملی والا میرا نبی ہے