نہ ختم ہو سکی ہمارے دل سے پیار کی کسک ،ابھی تلک
ازل سے انتظار میں جھپک نہیں رہی پلک،ابھی تلک
ترس رہا ہے جبلِ ثور آپؐ کے قیامِ مشکِ ناب کو
بسی ہے جبلِ نور پر، حرا میں آپؐ کی مہک،ابھی تلک
براق والے دل نشین دلربا کی کاش پھر سے دید ہو
بچھے ہوئے ہیں فرش کہکشاؤں کے فلک فلک،ابھی تلک
پڑھا تھا ایک بار ہی درُودِ پاک صدقِ قلب و رُوح سے
فرشتے کر رہے ہیں میرا تذکرہ سرِ فلک،ابھی تلک
ہوا تھا اشکبار دو گھڑی کو جالیوں کے پاس با ادب
تنی ہے سر پہ رنگ و نورِ لطف کی حسیں دھنک،ابھی تلک
جہان بھر کے راستے دل و دماغ کے ورق سے مٹ گئے
بھلا نہ پائے شہر مصطفیٰؐ کی اندروں سڑک،ابھی تلک
درخت جس کو اذنِ حاضری عطا کیا تھا آپؐ نے کبھی
خوشی سے جھومتی ہیں اُس کی ڈالیاں لہک لہک،ابھی تلک
مجھے بھی جلوہ گاہِ مصطفیٰؐ کی حاضری کا اِذن ہو عطا
صدائیں دے رہاہے یاکریم ؐ،دل دھڑک دھڑک،ابھی تلک
کروڑوں جلوہ گاہِ مصطفیٰؐ سے ہو کے جا چکے ہیں باادب
تڑپ رہے ہیں بہرِ حاضری کروڑ ہا ملک،ابھی تلک
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- صراط ِ نُور