پھر مدینے کو چلا قافلہ دیوانوں کا

پھر مدینے کو چلا قافلہ دیوانوں کا

منتظر خود ہے خدا آپ کے مہمانوں کا


شمع ایوانِ رسالت پہ فدا ہونے کو

شوق بڑھتا ہی چلا جاتا ہے پروانوں کا


سینکڑوں جنتیں قربان ہوئی جاتی ہیں

مرتبہ دیکھو مدینے کے بیابانوں کا


درِ اقدس کی زیارت ہو قضا سے پہلے

حجِ اکبر ہے یہی سوختہ سامانوں کا


مرے اشعار ہیں کیا ان کی حقیقت کیا ہے

تذکرہ ہے دلِ بے تاب کے ارمانوں کا


والیِٔ کون و مکاں ہیں جہاں راحت فرما

وہی عنواں ہے ظہوریؔ مرے افسانوں کا

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

پہنچے کہاں کہاں نہ حبیبِؐ خدا کے ہاتھ

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

نازشِ عرشِ معلّیٰ آپ ہیں

جلوہ گر آج ہوئے مونس و غم خوار و شفیق

یک زباں آج ہوئے نطق و قلم بسم اللّٰہ

اے شافعِ اُمَم شہِ ذِی جاہ لے خبر

جنہیں تیرا نقشِ قدم مِلا ‘ وہ غمِ جہاں سے نکل گئے

کوئی عاصی نئیں میں ورگا میں مناں یا رسول اللہ

پاک نبی تے لکھ درُود پاک نبی تے لکھ درُود

غریباں دا بن دا اے