رب نے بخشا جو تِری مدح و ثنا کا اعزاز

رب نے بخشا جو تِری مدح و ثنا کا اعزاز

مجھ کو دارین میں کافی ہے یہ آقا ! اعزاز


حفظ ہے تیرے قوانین کا، پانا اعزاز

بھولنا تیرے فرامیں کا ،گمانا اعزاز


میں گدا خاک نشیں مسکنِ تذلیل کجا

اور کجا آپ شہِ عرش سراپا اعزاز


حفظِ عذرائی تِرے دم کے رہین منت

تو نے بیواؤں یتیموں کو کیا با اعزاز


مغربی طرزِ خرافات میں کیا رکھا ہے

اُسوۂِ سرور عالم میں ہے سارا اعزاز


مدحتِ قاسمِ عظمت کی کتابت کے سبب

میرے ہاتھوں کا لیا کرتا ہے بوسہ اعزاز


چشمِ کونین میں کیونکر نہ معظمؔ ٹھہرے

ان کے نعلین مقدس سے ہے چمٹا اعزاز

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

میں راہ اوہدے وچ رُل دا ہاں محبوب پیارا نہیں آیا

چادر سی جو نور کی تنی ہے

روشن جن کے عشق سے سینے ہوتے ہیں

شیریں ہے مثلِ حرفِ دُعا نام آپؐ کا

پیامِ خدا عام فرمانے والے

حشر میں مجھ کو بس اتنا آسرا درکار ہے

ہمیں کیا باریاب تمؐ نے

میں نے در رسول پہ سر کو جھکا دیا

اعمال بھی ہمارے کسی کام کے نہیں

میں خود یہاں ہوں دِل ہے اُسی انجمن کے ساتھ