سدا ممنونِ احساں ہوں کہ

سدا ممنونِ احساں ہوں کہ جوڑا اپنی نسبت میں

اسی نسبت سے ہوتا ہے اضافہ میری عزّت میں


بدن تیروں سے چھلنی ہے مگر بولے صحابی یُوں

ترے قدموں میں موت آئے مزا آئے شہادت میں


عجب منظر تھا اقصیٰ میں ترِی شانِ رفیعہ کا

کھڑے تھے ہاتھ باندھے سب نبیؐ تیری امامت میں


انہوں نے ہاتھ تھاما ہے پڑی ہے جب کوئی مشکل

انہی کا نامِ اقدس ہے وسیلہ میری حاجت میں


سمٹ کر پھر مدینے میں ہی آ جانا ہے ایماں نے

سکونت شہرِ طیبہ کی خدایا لکھ دے قسمت میں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

دیگر کلام

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے

روز و شب ہم مدحت خیر الوراﷺ کرتے رہے

سوتے میں نعتِ پاک ہوئی ہے کبھی کبھی

خاک پر نُورِ خُدا جسم میں ڈھل کر اُترا

طیبہ دے پر کیف منظر تے بہاراں نوں سلام

طیبہ میں پہلا نقش حَسَن مسجدِ قُبا

سردارِ قوم سرورِ عالم حضورؐ ہیں

یا نبی! دَر پہ بلائیں

طیبہ کے تاجدار نے دی زندگی نئی

وقت کی آنکھ محو سفر تھی