وقت کی آنکھ محو سفر تھی

وقت کی آنکھ محو سفر تھی

مسلسل ...... جلوه بعد جلوه


اور پھر یہ آنکھ اُس پر رک گئی

جو آئینہ حسن یقیں تھا


جس نے دنیا میں اپنی آمد سے پہلے

اپنے نفمے سنے


انبیاء نے جس سے

میثاق وفا باندها


آدم کی تکریم

فرشتوں کا سجدہ


خاک دانِ تیرہ کے انتشار میں زندگی کی نمو

زندگی کے مرحلے


ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف

کہکشائیں


سیارے

یہ سب خیر مقدمی مراحل تھے


اور پھر

بر خیز کہ آدم را ہنگام نمود آمد


اسی ہنگامہ نمود کو

یوم میلاد محمد کہتے ہیں

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

مدینہ آسرا اے بیکساں دا

نہ عرشِ ایمن نہ اِنِّیْ ذَاھِبٌ میں میہمانی ہے

جلوہ فرما ہو اگر شاہِ اُمَم کی صورت

اشک یادِ نبی میں جب نکلیں مشعل راہ بن کے آتے ہیں

گلشنِ دہر میں ہر جا ہے لطافت ان کی

سانس میں ہے رواں میرا زندہ نبی ؐ

کھلا ہے سبھی کے لئے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنی ٰ نہ عالی

میرے کملی والے دا گھر اللہ اللہ

سرکار کی آمد مرحبا

ثنائے احمدِ مُرسل میں جو سخن لکھوں