ثنا کی مجھ کو ملے روشنی کبھی نہ کبھی
رواں دواں ہو مری آگہی کبھی نہ کبھی
طوافِ خضرٰی جو میری نظر کرے عاجز
بھلی لگے گی اُنہیں عاجزی کبھی نہ کبھی
اگر نہیں ہے محبت رسولِ اکرم کی
’’ضرور دے گی دغا زندگی کبھی نہ کبھی‘‘
مجھے عطا ہو خدارا ضیا کا ہر لمعہ
یہ دور ہوگی مری تیرگی کبھی نہ کبھی
زمین طیبہ کی چوموں قدم قدم پہ مگر
دکھائے مجھ کو مری عاشقی کبھی نہ کبھی
لکھوں گا شاہِ مدینہ کا میں درود و سلام
مرے سخن کو ملے تازگی کبھی نہ کبھی
کبھی تو نقشِ کفِ پا کو چوم لوں قائم
زباں پہ رقص کرے چاشنی کبھی نہ کبھی
شاعر کا نام :- سید حب دار قائم
کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن