سوئے طیبہ یہ سمجھ کر ہیں زمانے جاتے

سوئے طیبہ یہ سمجھ کر ہیں زمانے جاتے

یہ وہ روضہ ہے جہاں دل نہیں توڑے جاتے


رتبے سرکارﷺ کے کیا خلق سے جانے جاتے

سب پہ اسرار ِ الٰہی نہیں کھولے جاتے


نور کی حد میں فقط نور ہی جاسکتا ہے

صرف اگر ہوتے بشر عرش پہ کیسے جاتے


جسم کے ساتھ اُٹھائے گئے جبکہ عیسیؑ

پھر نورِ کامل کیوں نہ شبِ اسریٰ بدن سے جاتے


چشمِ باطل سے مدینے کے نظارے دیکھو

صرف آنکھوں سے یہ منظر نہیں دیکھے جاتے


ان کے کردار کے قد ناپ رہی ہے دنیا

جن کے دیوانوں کے قد تک نہیں ناپے جاتے


بھول جاتے تھے صحابہ غم و آلام اپنے

دیکھ لیتے تھے جو سرکارﷺ کو آتے جاتے


زندگی دوری سرکار ہے خود موت ہے شوق

ہم ہر سانس میں اپنے سے بکھرتے جاتے

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

مِری ہستی مٹائی جارہی ہے

عاصیاں او گنہاراں اُتے رب نے کرم کمایا اے

شمعِ بدرالدجیٰ ﷺ پھر جلادو

بوقتِ مرگ یہ جلوہ مِری نظر میں رہے

مضموں میں جس کے حبِ شہِؐ دوسرا نہیں

گنبد خضریٰ کو ہر دم اس لیے دیکھا کرو

ہوئی ظلم کی انتہا کملی والے

رسول کوئی کہاں شاہِؐ انبیا کی طرح

آنکھوں نے جہاں خاک اُڑائی ترے در کی

جو اسمِ گرامی شرفِ لو ح و قلم ہے