صُبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

صُبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عُمر یونہی تمام ہوتی ہے


پوری کب آرزو مدینے کی

شاہِ خیرالانام ہوتی ہے


مُصطَفٰے کا ہے جو بھی دیوانہ

اُس پہ رَحمت مُدام ہوتی ہے


سنّتوں کا ہے جو بھی شَیدائی

اُس پہ دوزخ حرام ہوتی ہے


بختورزائروں کی مکّے میں

صبح، طیبہ میں شام ہوتی ہے


یاحبیبِ خدا کرم کر دو!

دُور کب غم کی شام ہوتی ہے


خوب انساں کو کرتی ہے رُسوا

جب زباں بے لگام ہوتی ہے


گر تکبّر ہو دل میں ذرّہ بھر

سن لو جنّت حرام ہوتی ہے


مال و دولت کے عاشِقوں کی ہر

آرزو ناتَمام ہوتی ہے


یاعمر! دینِ حق کے اَعدا پر

تَیغ کب بے نِیام ہوتی ہے؟


پائے رُتبہ شہید کا خُلد اُس

کیلئے دو ہی گام ہوتی ہے


سن لو ہر ایک نیک شخصیَّت

قابِلِ اِحتِرام ہوتی ہے


اٹھو عطارؔ طیبہ چلتے ہیں

اُن کی رَحمت تو عام ہوتی ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

ابتدائے نعت کا جب تکمِلہ ہوجائے گا

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

دلاں دے درد دا دارو ہوا مدینے دی

محمد جہیا کوئی آیا ناں آوناں

مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں

حضور! کیا منہ ہے اب ہمارا جو پاس آئیں

آج دل نور ہے میری جاں نور ہے

نظر آتے ہیں ہر ذرّے میں نظّارے مُحمّد کے

مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا

جمالِ ذات کا آئینہ تیری صورت ہے