سنا، دیارِ کا سارا حال مجھے

سنا، دیارِ کا سارا حال مجھے

ہوائے کوئے نبی مشک پر نہ ٹال مجھے


اڑا کے مجھ کو لیے چل فضائے طیبہ میں

فراق و ہجر کی ظلمات سے نکال مجھے


تمام زخمِ جگر ہوں سرُور کا باعث

اگر حضور سے مل جائے اندمال مجھے


مشامِ جان میں اتری عقیدتوں کی دھنک

دیارِ نور کا آیا ہے جب خیال مجھے


میں جان کر نہ سکا نذر ان کی چوکھٹ پر

سدا رہے گا اسی بات کا ملال مجھے


عطا کیا ہے مدینے کے شاہ نے اتنا

کہ پھر ہوئی ہی نہیں حاجتِ سوال مجھے


عروج، مدحتِ سرکار سے ملا، ورنہ

ستائے دیتا تھا اندیشۂ زوال مجھے


حسن حسین کی الفت ہے میرا سرمایہ

عزیز جان سے ہے مصطفیٰ کی آل مجھے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

اج رب نے کملی والے نوں عرشاں تے بلاؤنا گج وج کے

مدحتِ محبوب میں آیاتِ قرآں کا نزول

کدی میں ول موڑ مہار سجن

حضورؐ آپؐ نے ذروں کو ماہتاب کیا

گنہ آلود چہرے اشک سے ڈھلوائے جاتے ہیں

منائیے جشن میلاد النّبیؐ دا

خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا

بے مثل زلفِ ناز ہے چہرہ ہے لاجواب

تیری یادوں کا ہر لمحہ تازہ خوشبو جیسا ہے

سکہّ حق چلانے حضورؐ آگئے