تجلّیِ روئے ماہِ طیبہ ستارا قسمت کا جگمگائے

تجلّیِ روئے ماہِ طیبہ ستارا قسمت کا جگمگائے

تو مجھ سا دیدارِ شہؐ کا پیاسا بھی مدتوں کی مراد پائے


خدا نے خلدِ بریں اتاری حریمِ محبوبِ دو جہاں میں

زمیں کی قسمت میں عرشِ اعظم سے کیسے کیسے مقام آئے


نہ صرف مہکے دلوں کے گلشن جناں میں بھی انقلاب آیا

ازل کی خوشبو ابد کی نکہت شہِؐ دو عالم ہیں ساتھ لائے


مزاج ہے موسموں کا بدلا درخت بازو ہلا رہے ہیں

ہوا کی مستی بتا رہی ہے کہ شاہِؐ خوباں ہیں مسکرائے


عبادتیں ہیںقبول اس کی ، نمازیں اس کی ، دعا ئیں اس کی

وہ خوش مقدّر نبیؐ کی مسجد اذان دے کر جسے بلائے


نہیں ہے اب خواب کی ضرورت حضورؐ تجھ کو بلا رہے ہیں

کوئی مرے مصطفیٰؐ کا قاصد یہ کاش کہ کے مجھے جگائے


شعور نمرود کو نہیں ہے وہ جدِ امجد حضورؐ کے ہیں

مگر ہے آگاہ نار ان سے وہ کیوں براہیمؑ کو جلائے


وداعِ شہر شہِؐ زمن تو ہے سر بسر موت عاشقوں کی

جسے ہو منظور زندگانی وہ لوٹ کر کیوں یہاں سے جائے


ہے منّ و سلویٰ کہ آبِ کوثر عطا انھی کی، مگر اے طاہرؔ

مری تمنّا ہے رزق میرا نبیؐ کے ہاتھوں سے ہو کے آئے

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

کیا شان ہے کیا رتبہ ان کا، سبحان اللہ سبحان اللہ

ہم کو آتا ہے صدا کرنا صدا کرتے ہیں

جس کسی کی طرف وہ نظر کر گیا

یہ اِکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا

ہر دم یہی دُعا ہے میری ، مرے خُدا سے

.آپ خیر الانام صاحب جی

کس نے پھر چھیڑ دیا قصہ لیلائے حجاز

آجاؤ رحمتوں کے خزینے کے سامنے

دیارِ نور میں اک آستاں دکھائی دیا

اُن کی طرف بڑھیں گے نہ لُطفِ خد اکے ہاتھ