ترا نام وردِ زباں رہے مری اور کوئی دعا نہیں
مجھے اپنے درد کی بھیک دے کہ تیرے خزانے میں کیا نہیں
ہیں حسین دل کی وہ دھڑکنیں ہمہ وقت جو تیرا نام لیں
ہے بجھی بجھی سی وہ زندگی تیرا درد جس کو ملا نہیں
وہ گھڑی بھی آئے گھڑی گھڑی تیرے در پہ ہو میری حاضری
تیرے در سے دور رہوں اگر کوئی زندگی کا مزہ نہیں
یہ عنایتوں پہ عنائتیں تیری ان گنت ہیں نوازشیں
ہیں کرم غریب نواز کے وہ ہے کیا جو مجھ کو ملا نہیں
ہو کرم نوازی حضور کی میرے غمکدے میں بھی آکبھی
میرے چارہ گر اے مرے نبی میرا کوئی تیرے سوا نہیں
تیرے واسطے جو ملول ہے وہی دل خدا کو قبول ہے
جو فدا نہیں تیرے نام پر اُسے دل بھی کہنا روا نہیں
یہ کرم ہیں میرے حضور کے سدا میرے کاسے بھرے رہے
جو میرے نبی کے گدا ہوئے وہ تو بادشاہ ہیں گدا نہیں
یہ ترے نیازی کی عید ہے ابھی اور حسرت دید ہے
اسے چوم لینے دو جالیاں ابھی دل تو اس کا بھرا نہیں
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی