تو خُود پیام جلی تھا پیامبر تو نہ تھا

تو خُود پیام جلی تھا پیامبر تو نہ تھا

لباس میں بشریّت کے تھا بشر تو نہ تھا


ہر اِک صدی کی زباں پر مکالمہ تیرا

کرے گا حشر تک اِنساں مطالعہ تیرا


کِتابِ نُور تھا ، دیباچہء سحر تو نہ تھا

تِرے غبارِ قدم سے بھی آفتاب بنے


تِرے اصول زمانوں کے اِنقلاب بنے

تو عہد ساز بھی تھا صرف راہبر تو نہ تھا


رِوائے مشرق و مغرب نہیں قبا تیری

سُنی ہے اور بھی دُنیاؤں نے صدا تیری


تِرا وجود فقط اِس زمین پر تو نہ تھا

جسارت ایسی تو رُوح الامین نے بھی نہ کی


وہاں تو آج کی سائنس بھی پہنچ نہ سکی

تِرا سفر کِسی سیّارے کا سفر تو نہ تھا


غموں کی دُھوپ میں دیکھا ہے مَیں نے چل پھر کے

مثالِ ابر ہے ہمراہ ہر مسافر کے


جو ساتھ چھوڑدے وُہ سایہء شجر تو نہ تھا

یہ اپنی شان کے شایاں کرم کِیا تُو نے


خُدا سے وعدہء بخشش بھی لے لیا تُونے

گُناہ گار مظفر سے بے خبر تو نہ تھا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

اوہ بن گئے نے رُومی اوہ بن گئے نے جامی

تخیل مشکبو ہو جائے تو نعتِ نبی کہیے

دنیا میں اَور بھی ہیں مگر آپؐ آپؐ ہیں

پیش کر دے نیں سب غلام حضورؐ

فقیراں دا ملجا مدینہ مدینہ

غبارِ طیبہ سے چہرے کو صاف کرتی ہے

ساقی کوثر ترا ہے جام و مینا نور کا

نبیوں کے سردار حبیبِ ربِ اکبر

کیا شور ذکر و فکر دعا پنجگانہ کیا

دمبدم تیری ثنا ہے یہ بھی