تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں

تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں، ہے چہرہ اُم الکتاب تیرا

نہ بن سکی ہے، نہ بن سکے گا، مثال تیری جواب تیرا


تو سب سے اول، تو سب سے آخر، ملا ہے حسنِ دوام تجھ کو

ہے عمر لاکھوں برس کی تیری، مگر ہے تازہ شباب تیرا


خدا کی غیرت نے ڈال رکھے ہیں تجھ پہ ستر ہزار پردے

جہاں میں بن جاتے طُور لاکھوں جو اک بھی اٹھتا حجاب تیرا


ہو مشک و امبر، یابوئے جنت، نظر میں اس کی ہے بے حقیقت

ملا ہے جس کو، مَلا ہے جس نے پسینہ رشک گلاب تیرا


میں تیرے حُسن وبیاں کے صدقے، میں تیری میٹھی زبان کے صدقے

با رنگِ خوشبو دلوں پہ اترا ہے کتنا دلکش خطاب تیرا


ہے تو بھی صائم عجیب انساں کہ خوف محشر سے ہے ہراساں

ارے تو جن کی ہے نعت پڑھتا وہی تو لینگے حساب تیرا

شاعر کا نام :- علامہ صائم چشتی

کتاب کا نام :- کلیات صائم چشتی

دیگر کلام

جو روشنی مدینے کے دیوار و دَر میں ہے

حبّذا ہم نے شہنشاہ کا روضہ دیکھا

قربان و نجاں صدقے تھیواں من مٹھرے سانول یار اتوں

آپ کی نگری ہے فردوسِ بریں میرے لیے

کیا خدا داد آپ کی اِمداد ہے

سخاوت ہی سخاوت ہے محبت ہی محبت ہے

درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

خورشید سےکچھ کم نہیں وہ چشمِ بشر میں

آؤ مدنی قافِلے میں ہم کریں مل کر سفر

رحمت کا ہے نُزول لَقَد جَاءَکُم رَسُول