وداعِ طیبہ پہ آنکھوں سے جو گرے آنسو

وداعِ طیبہ پہ آنکھوں سے جو گرے آنسو

زمینِ بخت کو شاداب کر گئے آنسو


انھی کو یاد کیا ہجر کے شبستاں میں

فراقِ شہرِ مدینہ میں ہیں جلے آنسو


کتابِ نعت کی تزئین کر رہا ہوں میں

ہیں آبدار خیالوں کو کر رہے آنسو


مواجہ پاک پہ آنکھیں ہی اشکبار نہ تھیں

ہمارے دستِ دعا پر بھی تھے سجے آنسو


ادب نے پہرہ بٹھایا ہوا تھا آنکھوں پر

درِ نبیؐ پہ بہے احترام سے آنسو


بتا رہا ہے یہ چہرہ ہر اک گلِ تر کا

کہ اس میں عشق و محبت کے ہیں گھلے آنسو


اُسے جہاں نے اِنھیں آپؐنے قبول کیا

کھلا کہ کحلِ بصارت سے ہیں بھلے آنسو


نبیؐ کے عشق میں ڈوبے ہوئے محبوں کے

دکھائی دیتے ہیں آنکھوں میں تیرتے آنسو


بہت ہیں قیمتی جن میں خلوص ہو طاہرؔ

مگر وہ شاہؐ کے امّت کے واسطے آنسو

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

ہیں خوب گل و غنچۂ تر خار ہے دلکش

امام ِ جُملہ رُسل گلبنِ ریاضِ خلیل

سجا ہے لالہ زار آج نعت کا

اوس در دے سوالی وی دیکھے تے بڑے ویکھے

خوشبو جو مل گئی ہے یہ زلفِ دراز سے

گُلوں کے اشارے دُعا کر رہے ہیں

آیا مہ شعبان معظّم

زندگی کا سفر ہے بڑا پُر خطر

جل رہے ہیں بدن درد کی دھوپ میں

جے سوہنا بلا وے مدینے نوں جاواں