ذرہ ذرہ نگاہ یار میں ہے

ذرہ ذرہ نگاہ یار میں ہے

ساری دنیا اسی حصار میں ہے


دل گرفتار زلف یار میں

چشم تر کس کے انتظار میں ہے


پیش ہوتے ہیں جاں کے نذرانے

ایسا اعجاز حسن یار میں ہے


تیرے قدموں پہ جاں نثار کروں

یہ مرے بس میں اختیار میں ہے


سبز گنبد کا سایا دیتا ہے

جو مزا خلد کی بہار میں ہے


آرزو ہے اگر شفاعت کی

یہ تو اُن کے ہی اختیار میں ہے


اس کی ملتی نہیں مثال کہیں

جو کشش آپ کے جوار میں ہے


میرے گھر بھی حضور آ جائیں

چشم تر کب سے انتظار میں ہے


دونوں عالم میں وہ سکوں نہ ملا

جو سکوں آپ کے دیار میں ہے


سر بسجدہ ہوں ان کی گلیوں میں

بے قراری بڑے قرار میں ہے


دین د دنیا میں سرخرو رکھنا

یا نبی تیرے اختیار میں ہے


ہے ترا ذکر میرا سرمایہ

اور کیا مجھے گنہگار میں ہے


نعت خوانوں میں نام ہے تیرا

تو نیازی بڑے شمار میں ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

مدینے سے بلاوا آ رہا ہے

میلاد ہے آج سرکاراں دا، سب درداں مارے ہس پئے نیں

جوان کے نقشِ قدم پر ہیں سر جھکائے ہوئے

سرورِ ذیشان شاہِ انبیاء یعنی کہ آپ

سمندر کے کنارے چل رہا تھا

بخشی گئی جو نعمتِ مدح و ثنا مجھے

آج ہے جشنِ ولادت مرحبا یامصطَفٰے

خواہش دیدار ہے مدت سے

روز عاشور کی یہ صبح عبادت کی گھڑی

ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے