ذکرِ بطحا نہیں سناتے ہو

ذکرِ بطحا نہیں سناتے ہو

کیوں مرا صبر آزماتے ہو


میں چراغِ سحر ہوں خضرٰی کا

’’مجھ کو جلنے دو کیوں بُجھاتے ہو‘‘


اذنِ آقا ملا ہے بطحا کا

کیوں مجھے تنہا چھوڑ جاتے ہو


روتا رہتا ہوں میں نہ جانے کیوں

جب بھی خضرٰی سے مڑ کے آتے ہو


خاکِ بطحا لگی جو قدموں سے

چومتا ہوں مجھے! دکھاتے ہو!


تم کو میلاد پر سلامی دوں

اپنی گلیوں کو جو سجاتے ہو


لوریوں کی اسے نہیں حاجت

پڑھ کے مدحت جسے سلاتے ہو


سانس دھیمے سے کھینچئے قائم

جب درِ مصطفٰی پہ جاتے ہو

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

ایسا شہ پارہ مجسم کر دیا خلاق نے

مرے محبوب تے لکھاں صلوٰتاں

تمہارا حُسن اگر بے نقاب ہو جَائے

قلبِ غمگیں کی راحت پہ لاکھوں سلام

محمد مصطفےٰ ﷺ صَلِ علیٰ تشریف لے آئے

قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

جسمِ آقا کے پسینے کا بدل نا ممکن

پہنچ ہی گیا میں وہاں روتے روتے

سیّد انس و جاں کا کرم ہوگیا

پاؤگے بخششیں قافلے میں چلو