ظلم و استبداد کا ظالم کے لشکر کا محاذ

ظلم و استبداد کا ظالم کے لشکر کا محاذ

آمدِ سرور ہوئی ٹوٹا ستم گر کا محاذ


کیوں نہ ملتا خاک میں باطل خداؤں کا غرور

دہر میں قائم ہوا اللہ اکبر کا محاذ


فوجِ باطل پر پڑی جب ضرب الا اللہ کی

ریزہ ریزہ ہوگیا باطل کے ہر شر کا محاذ


انقلابِ مصطفیٰؐ نے دہر میں قائم کیا

صاحبانِ آشتی و امن پیکر کا محاذ


دہر میں دین خلیلی کا ہوا رائج نظام

ہوگیا نابود ہر اصنامِ آزر کا محاذ


ظلم کے مدِ مقابل شہ نے یکجا کر دیا

تھا جو بکھرا بے کس و مظلوم و بے در کا محاذ


دشمنوں کے بیچ سے نکلے شبِ ہجرت حضور

رہ گیا سارا دھرا بو جہل کے شر کا محاذ


دی شکستِ فاش پھر بھی لشکرِ اشرار کو

مختصر تھا کربلا میں ابنِ حیدر کا محاذ


یادِ طیبہ آتے ہی احسؔن بنا دے چشمِ غم

اشک ہائے ہجر سے با دیدۂ تر کا محاذ

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

رَاہ گُم کردہ مسافر کا نگہبان تُو ہے

نہ کیوں آج جھومیں کہ سرکار آئے

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

اَب کہاں حشر میں اندیشہء رُسوائی ہے

کہکشاؤں کے سحر زیرِ قدم رہتے ہیں

بڑے ادب سے جھکا کے نظریں

تقدیر کے سب لعل و گہر لے کے چلا ہوں

کرتے ہیں عرض حال زبانِ قلم سے ہم

آفاق رہینِ نظرِ احمدؐ مختار

یا ربّ! مِرا نصیب مجھے