آج اشکوں سے کوئی نعت لکھوں تو کیسے

آج اشکوں سے کوئی نعت لکھوں تو کیسے

کوئی آنسو بھی مرے پوچھنے والا نہ رہا


غم کی تصویریں لفظوں سے بنا تا ہوں مگر

وہ مرا دستِ ہنر دیکھنے والا نہ رہا


آؤ ہم مل کے چلیں سُوئے مدینہ اک بار

اس سخن کا مرے اب کوئی حوالہ نہ رہا


وہ رفیقِ سفرِ شہرِ مدینہ ہے کہاں

رہ گیا رختِ سفر قافلے والا نہ رہا


رنگ جذبات کے سب اُڑ گئے لفظوں سے مرے

سبزہ سبزہ نہ رہا لالہ بھی لالہ نہ رہا


اس پرستارِ مدینہ کے چلے جانے سے

لذتِ زیست کے ایواں میں اُجالا نہ رہا

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

چار مصرعے تیری ممتا پر مرے فن کا نچوڑ

مبارک فضل بھائی کو عجب ہی نورچھایاہے

مارہرہ سے ناتا ہے اور مدینہ بھاتا ہے

نوریو آؤ ذرا قاسمی جلسہ دیکھو

یارب ہمیں بلندیٔ فکر و خیال دے

شاہِ برکت کی برکات کیا پوچھیے جس کو جو بھی ملا ان کے گھر سے ملا

بہ حکمِ رب کریں گے مدحتِ سرکار جنت میں

مَدنی چَینل سنّتوں کی لائے گا گھر گھر بہار

پائے گا یونس رضا عُمرے کی خیر اُمّید ہے

کرم تو دیکھئے احساں تو دیکھئے ان کا