بصارت منجمد ہے

بصارت منجمد ہے

اور زباں اک بر ف پارے کی طرح سُن ہے


مرے یخ ذائقے میں ریت کی طرح سُن ہے

سماعت اس قدر بے دست وپا ہے


صرف سناٹے کی مبہم اور پیہم چیخ اس کی دسترس میں ہے

زمیں کو سونگھتا ہوں تو خلا کی باس آتی ہے


فقط اِک حس ابھی زندہ ہے

مستقبل کے لمس دلربا کی حِس !


مسلسل اِرتقا کی حِس !

خدا کی حِس !

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

گریۂ کُن بُلبلا از رنج و غم

ماہ و انجم کو پرو کر جو بنایا سہرا

رُخ دن ہے یا مہرِ سَما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

عطائے حبیبِ خدا مَدنی ماحول

جوبنوں پر ہے بہارِ چمن آرائی دوست

چلی پیا کے دیس دولہنیا بھیس بدل کے

دُشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے

دل کی کَلیاں کِھلیں قافِلے میں چلو

ملت کے نگہباں تیرا اللہ مددگار

لوگ رخصت ہوئے جو حج کے لیے