میں اس رات کی بے ازل

میں اس رات کی بے ازل ‘ بے ابد خامشی میں

جو اک گونج سی سن رہا ہوں


یہ کیا گونج ہے ؟

کائناتوں کے کس گوشئہ بے نہایت سے آئی ہے ؟


اس کے تسلسل میں صرف ایک ہی لفظ کیوں گونجتا ہے ؟

یہ اک لفظ کیا ہے جسے "کُن " کے بعد اتنی عظمت ملی ہے ؟


یہ لفظ اپنی تکمیل کی جستجو میں

کئی سورجوں کے مقدر پہ منڈلارہا ہے


یہ کیا اِسم ہے جو بھری کائناتوں کو بے اِسم کرنے چلا ہے ؟

یہ کیا گونج ہے جو قیامت کے آثار سی ہے ؟


یہ چکی کے پاٹوں کے چلنے کی ۔۔۔ سات آسمانوں کے اِک دوسرے کو

کچلنے کی آواز کیا ہے ؟


خلاؤں کی بے انہتائی میں کچھ پِس رہا ہے کچھ بَن رہا ہے ؟

یہ سب کچھ نہیں ہے تو کیا ان گنت کائناتوں کا خالق خدا


اک نیا تجربہ کر رہا ہے ؟

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

کرم تو دیکھئے احساں تو دیکھئے ان کا

ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں

یادِ وطن سِتم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں

پائے گا یونس رضا عُمرے کی خیر اُمّید ہے

نہیں کچھ بھی اس کے سوا چاہیے

میں کیا ہوں معلوم نہیں

مل گئی کیسی سعادت مل گئی

مثنویِ عطار- ۳