آن پڑے ہیں تورے دوارے

آن پڑے ہیں تورے دوارے

بھاگ جگاؤ خواجہ آج ہمارے


پاپوں کی گٹھڑی لے کر آئی ہوں تورے دوار

پاپن ہوں من کی میلی کرپا کرو سرکار


روتا گیا نہ کوئی در سے تمہارے - بھاگ جگاؤ

تو بن کیسے کاٹوں جیون کی میں رتیاں


من پر چاؤں اپنا کر کے تمہاری میں بتیاں

آؤ کبھی تو گھر میں ہمارے ۔ آن پڑے ہیں


میں ہوں بھکارن توری تو ہے غریب نواز

میں ہوں تمہاری بابا میرا تو ہے تو ہی ناز


جیتی ہوں میں تو بابا تیرے سہارے - آن پڑے ہیں

مانگوں نہ سونا چاندی مانگوں کرم کی نجریا


آباد رکھے مولا بابا تمہاری نگریا

اجمیری خواجہ کملی والے کے پیارے ۔ آن پڑے ہیں


جان بھی تیری خواجہ اور یہ دل بھی ہے تیرا

سندر صورتیا والے میں توری داسی تو ہے میرا


میرا تو سب کچھ خواجہ نام تمہارے - آن پڑے ہیں

ڈگمگ ڈولے نیا دور بڑی ہے کنارا


ہم کو بھی دینا خواجہ اپنے کرم کا سہارا

لگ جائے نیا موری اب تو کنارے ۔ آن پڑے ہیں


خواجہ رے خواجہ تجھ کو تیرے پریمیوں کا واسطہ

محفل میں جو بھی آیا کشکول بھر دے سب کی آس کا


لاکھوں کے خواجہ تو نے بخت سنوارے - آن پڑے ہیں

تورے پریمیوں میں ایک پریمی ہے نیازی


لج پال خواجہ میرے رہنا سدا مجھ پہ راضی

ٹکڑوں پہ تیرے سب کے گزارے ۔ آن پڑے ہیں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

عمر تیری قسمت دی گلزار مہکی ابر رحمتاں دا وسایا نبی نیں

تمہارے نام یہ سب کچھ ملا غریب نواز

ہر دکھ یزیدیوں سے اٹھایا حسین نے

مثالی ہے جہاں میں زندگی فاروقِ اعظم کی

میرے اُستادِ معظم کا کلام

ہم نہ چھوڑیں گے تیرا در داتا

غوثِ اعظم کی جس پر نظر پڑ گئی

دیارِ خلد میں جاہ و حشم حسین کا ہے

جاں بلب ہوں آ مری جاں اَلْغِیَاث

ملکہء کونین فاطمہ