جھکتے ہیں جہاں سبھی تیرا وہ آستاں

جھکتے ہیں جہاں سبھی تیرا وہ آستاں

عباس تیرے در سا دنیا میں در کہاں


تو قمر بنی ہاشم زہرا کی تو دُعا ہے

سایہ تیرے عالم کا دو جگ پہ باخدا ہے


تیرے علم کو چومنے جھکتا ہے آسماں

عباس تیرے در سا دنیا میں در کہاں


شیر خدا ہے بابا اور شیر کربلا تو

تیرے در پہ جو بھی آئے مشکل کرے کشا تو


تیرے دیے جلاتا ہے اس لیے جہاں

عباس تیرے در سے دنیا میں در کہا


تو شہنشاہ وفا کا دو جگ پہ تیری شاہی

پنجتن ہیں تجھ پہ نازاں ایسی وفا نبھائی


شاہد تیرے علم پہ پنجتن کا یہ نشاں

عباس تیرے در سا دنیا میں در کہاں


جھکتے ہیں جہاں سبھی تیرا وہ آستاں

عباس تیرے در سا دنیا میں در کہاں

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

راکب دوشِ شہنشاہِ امم

علیؑ علیؑ عرفان کا در ہے ‘ علی ؑ گویا ولی گر ہے

مدینہ کی انگو ٹھی ہے نگینہ غوثِ اعظم کا

دُخترِ برقِ رنج و محن بن کے تن ہر بدن میں اجل کی اگن گھول دے

وہ ایک فرد جو محور تھا سارے رشتوں کا

کر بل کہ آگ کا میں دہانہ کہوں اسے

مِرا جہاں میں ظُہور و خِفا مُعینی ہے

صاحبِ علمِ لدنی صدرِ بزمِ اولیا

خلق پہ لطفِ خدا حضرتِ عثمان ہیں

علی حق علی