آستاں ہے یہ کس شاہِ ذیشان کا مرحبا مرحبا
قلب ہیبت سے لرزاں ہے انسان کا مرحبا مرحبا
ہے اثر بزم پر کس کے فیضان کا مرحبا مرحبا
گھر بسانے مری چشمِ ویران کا مرحبا مرحبا
چاند نکلا حسن کے شبستان کا مرحبا مرحبا
سر کی زینت عمامہ ہے عرفان کا ، مرحبا مرحبا
جُبّہ تن پر محمدؐ کے اِحسان کا، مرحبا مرحبا
رنگ آنکھوں میں زہرا کے فیضان کا، مرحبا مرحبا
رُوپ چہرے پہ آیاتِ قرآن کا ، مرحبا مرحبا
سج کے بیٹھا ہے نوشاہ جیلان کا ، مرحبا مرحبا
بزمِ کون و مکاں کو سجایا گیا، آج صلِّ علیٰ
سائباں رحمتوں کا لگایا گیا ، آج صلِّ علی ٰ
انبیا اولیا کو بُلایا گیا، آج صلِّ علیٰ
ابنِ زہرا کو دُلہا بنایا گیا ، آج صلِّ علی ٰ
عُرس ہے آج محبوبِ سُبحان کا ، مرحبا مرحبا
آسماں منزلت کس کا ایوان ہے ، واہ کیا شان ہے
آج خَلقِ خدا کس کی مہمان ہے ، واہ کیا شان ہے
لَا تَخَفُ کس کا مشہور فرمان ہے ، واہ کیا شان ہے
بالیقیں وہ شہنشاہِ جیلان ہے ، واہ کیا شان ہے
حق دیا جس کو قدرت نے اعلان کا ،مرحبا مرحبا
ہر طرف آج رحمت کی برسات ہے ، واہ کیا بات ہے
آج کُھلنے پہ قُفلِ مُہّمات ہے ، واہ کیا بات ہے
چار سُو جلوہ آرائیِ ذات ہے ، واہ کیا بات ہے
کوئی بھرنے پہ کشکولِ حاجات ہے ، واہ کیا بات ہے
جاگنے کو مُقدّر ہے انسان کا ، مرحبا مرحبا
کوئی محوِ فُغاں ، کوئی خاموش ہے ، اب کسے ہوش ہے
سازِ مُطرِب کی لَے نغمہ بردوش ہے ، اب کسے ہوش ہے
عقل حیرت کے پردے میں رُوپوش ہے ، اب کسے ہوش ہے
بزم کی بزم مستی در آغوش ہے ، اب کسے ہوش ہے
پی کے ساغر علی کے خُمستان کا ، مرحبا مرحبا
کیا حسیں منظرِ جُود و اِکرام ہے ، دعوتِ عام ہے
اہلِ دل کی نظر مستی آشام ہے ، دعوتِ عام ہے
حشر تک مُدّتِ گردشِ جام ہے ، دعوتِ عام ہے
دستِ جبریلؑ مصروفِ اِطعام ہے ، دعوتِ عام ہے
کھاؤ صدقہ علی شاہِ مردان کا ، مرحبا مرحبا
شمعِ توحید دل میں جلا کر پیو ، دل لگا کر پیو
شاہِ بطحاؐ کی خیرات پا کر پیو ، دل لگا کر پیو
نغمہء کاسہء وصل گا کر پیو، دل لگا کر پیو
آنکھ مہرِؒ علی سے مِلا کر پیو ، دل لگا کر پیو
خُود پلانے پہ ساقی ہے جیلان کا ، مرحبا مرحبا
ہے عجب حُسن کا بانکپن سامنے ، اک چمن سامنے
اہلِ تطہیر ہیں خیمہ زن سامنے ، پنجتن سامنے
ہے یہ رُوئے حسن کی پھبن سامنے ، یاحسن سامنے
جلوہ فرما ہیں غوثِ زمن سامنے ، ضَو فگن سامنے
دیکھئے کیا بنے چشمِ حیران کا ، مرحبا مرحبا
گُلشنِ مصؐطفیٰ کی پھبن اور ہے ، یہ چمن اور ہے
شاہِؐ ابرار کی انجمن اور ہے ، یہ چمن اور ہے
بُوئے گُلدستہء پنجتن اور ہے ، یہ چمن اور ہے
شانِ آلِ حسین و حسن اور ہے ، یہ چمن اور ہے
سرمدی رنگ ہے اِس گُلستان کا ، مرحبا مرحبا
فقر کی سلطنت طُرفہ سامان ہے ، رحمت ایوان ہے
اِس کے زیرِ نگیں قلبِ انسان ہے ، عجز عنوان ہے
کس کا دستِ نظر کاسہ گردان ہے ، عقل حیران ہے
اِک ولی زیبِ اورنگِ عرفان ہے ، واہ کیا شان ہے
سر جُھکے ہے یہاں میر و سُلطان کا ، مرحبا مرحبا
پر گھڑی مہرباں ذاتِ باری رہے ، فیض جاری رہے
خاک بوسی پہ بادِ بہاری رہے ، فیض جاری رہے
عالمِ کیف میں بزم ساری رہے ، فیض جاری رہے
بیخودی تیرے مستوں پہ طاری رہے ، فیض جاری رہے
مینہ برستا رہے تیرے احسان کا ، مرحبا مرحبا
عرشِ اسرار تک جس کی پرواز ہے ، طُرفہ انداز ہے
علمِ لاہُوت کا حاصل اعزار ہے ، طُرفہ انداز ہے
زہد و تقوٰی میں یکتا و مُمتاز ہے ، ، طُرفہ انداز ہے
آبروئے چمن قامتِ ناز ہے طُرفہ انداز ہے
پِیر مہرِؒ علی قُطبِ دوران کا ، مرحبا مرحبا
گو لڑے کی زمیں کتنی مسعود ہے ، خطّہء جُود ہے
ابن مولا علی جس میں موجود ہے ، ، خطّہء جُود ہے
کیا حسیں منظرِ شانِ معبود ہے ، ، خطّہء جُود ہے
ہر ایاز اِس کا ہمدوشِ محمود ہے ، ، خطّہء جُود ہے
اوج پایا ہے ، بِرجِیس و کَیوان کا ، مرحبا مرحبا
تیرے دیوانے حاضر ہیں سرکار میں ، آج دربار میں
سر جُھکائے جنابِ گُہَر بار میں ، آج دربار میں
بن کے سائل تری بزمِ انوار میں ، آج دربار میں
یُوسفِ مصرِ دل تیرے بازار میں ، آج دربار میں
جشن ہے کیا دل افروز عرفان کا ، مرحبا مرحبا
دربدر مفت کی ٹھوکریں کھائے کیوں ، ہاتھ پھیلائے کیوں
مانگنے کُوئے اغیار میں جائے کیوں ، ہاتھ پھیلائے کیوں
اُسکے ناموسِ غیرت پہ حرف آئے کیوں ، ہاتھ پھیلائے کیوں
دل قناعت کی ضَو سے نہ چمکائے کیوں ، ہاتھ پھیلائے کیوں
جو نمک خوار ہو پیرِ پیران کا ، مرحبا مرحبا
شاہِ جیلاں ؒ کی چوکھٹ سلامت رہے ، تا قیامت رہے
نقشِ پا کا چمن پُر کرامت رہے ، تا قیامت رہے
خَلعتِ اِجتبا زیبِ قامت رہے ، تا قیامت رہے
سر پہ ولیوں کا تاجِ امامت رہے ، تا قیامت رہے
سلسلہ غوثِ اعظمؒ کے فیضان کا ، مرحبا مرحبا
وارثِ خا تَمُ المرسَلیں آپ ہیں ، بالیقیں آپ ہیں
قصرِ زہرا کا نقشِ حسیں آپ ہیں ، بالیقیں آپ ہیں
دینِ برحق کے مُحی و مُعیں آپ ہیں ، بالیقیں آپ ہیں
بزمِ عرفاں کے مسند نشیں آپ ہیں ، بالیقیں آپ ہیں
ہر ولی طفل ہے اِس دبستان کا ، مرحبا مرحبا
مظہرِ ذاتِ ربِّ قدیر آپ ہیں ، دستگیر آپ ہیں
کاروانِ کرم کے امیر آپ ہیں ، دستگیر آپ ہیں
شاہِ بغداد پیرانِ پیر آپ ہیں ، دستگیر آپ ہیں
اِس نصیؔر حزیں کے نصیر آپ ہیں ، دستگیر آپ ہیں
کوئی ہمسر نہیں آپ کی شان کا ، مرحبا مرحبا
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت