جو خالقِ گلشن تھے ‘ وہی

جو خالقِ گلشن تھے ‘ وہی وقفِ خزاں تھے

دریاؤں کے مالک تھے مگر تشنہ دہاں تھے


پا برہنہ ‘ تپتی ہوئی راہوں پہ رواں تھے

وہ لوگ کہ جو راحتِ دل ‘ راحتِ جاں تھے


جو حسن تھے ‘ رحمت تھے ‘ محبت تھے ‘ اماں تھے

آنچ آئی جو سچ پر تو وہی شعلہ بجاں تھے


تھا وہ بھی عجب وقت کہ اِک دشت کی جانب

جاتے ہوئے ‘ آتے ہوئے لمحے نگراں تھے


حق بات پہ اَڑنے کی حقیقت کے مقابل

باقی جو حقائق تھے وہ سب وہم و گماں تھے


جو خون کا قطرہ تھا وہ تاریخ کی لَو تھا

نیزوں پہ جو سر تھے ‘ ابدیت کے نشاں تھے

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

طلب کا منھ تو کس قابل ہے یا غوث

طلوعِ صبح کا عنوان ہے علی اکبر

ہر زمانے میں ہے تا بندہ حسین

گھمکول کی وادی کے ہیں

ہمیشہ جوش پر نظر کرم ہے میرے خواجہ کا

بغداد کے مسافِر میرا سلام کہنا

قلم کی تاب کہاں کہ کرے بیانِ غم

یاد آتی ہے مجھے جس دم ادائے غوث پاک

شاہِ خیبر شکن کی یاد آئی

غوثاں دے غوث دی محفل اے ایتھے آکے نہ تکرار کریں