جو خالقِ گلشن تھے ‘ وہی وقفِ خزاں تھے
دریاؤں کے مالک تھے مگر تشنہ دہاں تھے
پا برہنہ ‘ تپتی ہوئی راہوں پہ رواں تھے
وہ لوگ کہ جو راحتِ دل ‘ راحتِ جاں تھے
جو حسن تھے ‘ رحمت تھے ‘ محبت تھے ‘ اماں تھے
آنچ آئی جو سچ پر تو وہی شعلہ بجاں تھے
تھا وہ بھی عجب وقت کہ اِک دشت کی جانب
جاتے ہوئے ‘ آتے ہوئے لمحے نگراں تھے
حق بات پہ اَڑنے کی حقیقت کے مقابل
باقی جو حقائق تھے وہ سب وہم و گماں تھے
جو خون کا قطرہ تھا وہ تاریخ کی لَو تھا
نیزوں پہ جو سر تھے ‘ ابدیت کے نشاں تھے
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال