ارضِ طیبہ عجیب بستی ہے

ارضِ طیبہ عجیب بستی ہے

جس کو ہر اک نظر ترستی ہے


بالیقیں زائر حرم کے لیے

ہر قدم جذب کیف و مستی ہے


آپ کی ذاتِ پاک ہے سب کچھ

مری ہستی بھی کوئی ہستی ہے


دل کی دنیا کو کیا کہیں آخر

رحمتِ عرش خود برستی ہے


سرِ بازار جنسِ عشق حضور

جتنی مہنگی ہے اتنی سستی ہے


یا نبی آپ ہی بلا لیجیے

پاؤں زنجیرِ یاس کستی ہے


پئے نعت نبی مئے انوار

میرے افکار پر برستی ہے


بے جمال درِ حضور صبیحؔ

زندگی موت کو ترستی ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

ماورائے حدِ ادراک رسولِؐ اکرم

غلام اُن کے در کا نمایاں نمایاں

آج رحمت کی ہو برسات مرے شاہِ زمن

قرآن میں ہے ساقیٔ کوثر حضور ہیں

کوئی لمحہ بھی تیرے ذکر سے خالی نہ ہوا

جدوں بھانبڑ جُدائیاں دے میرے دل وچہ بلے رہندے

یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

بچھا ہے ہر طرف خوانِ محمّد ﷺ

گنہ آلود چہرے اشک سے ڈھلوائے جاتے ہیں

مدحِ ناقہ سوار لایا ہوں