اے شبِ ہجر مجھ کو بتا دے ذرا یاد ان کی ستائے تو میں کیا کروں

اے شبِ ہجر مجھ کو بتا دے ذرا یاد ان کی ستائے تو میں کیا کروں

چین سئ دیکھا سارا جہاں سو گیا نیند مجھ کو نہ آئے تو میں کیا کروں


میں نے مانگی شب و روز ہی یہ دعا میرے مولا مدینہ مجھے بھی دکھا

مجھ سے جو ہو سکا وہ تو میں نے کیا میری باری نہ آئے تو میں کیا کروں


جا کے کہنا مدینے نسیمِ سحر کوئی بیٹھا ہوا ہے سرِ رہگزر

عمر ساری گزر جائے آقا اگر یونہی بیٹھے بٹھائے تو میں کیا کروں


اک زمانہ ہوا رنج سہتے ہوئے ہر گھڑی دردِ فرقت میں رہتے ہوئے

آنسوؤں کے سمندر میں بہتے ہوئے میرا دل ڈوبا جائے تو میں کیا کروں


میرا دل میرے ہاتھوں سے جاتا رہا روٹھی تقدیر کو میں مناتا رہا

یہ زمانہ تو دامن بچاتا رہا تُو بھی دامن بچائے تو میں کیا کروں


عقل دیتی رہی مجھ کو دھوکا سدا عشق تھا جس نے منزل پہ پہنچا دیا

عقل سے دشمنی پہ ظہوریؔ بھلا کوئی انگلی اٹھائے تو میں کیا کروں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

جو ہجرِ درِ شاہ کا بیمار نہیں ہے

جیسے جیسے نور ظاہر آپ کا ہوتا رہا

بادِرحمت سنک سنک جائے

شاہِ کونین جلوہ نما ہوگیا

جنہاں فقیراں دے لج پال پیر ہوندے نیں

آیا لبوں پہ ذِکر جو خیر الانام کا

فصل خزاں میں احمد مختار سے بہار

عطا کرتی ہے شان ماوَرائی یا رَسُول اللہ

دل و نظر میں بہار آئی سکوں

دل ہوا گھائل ز فرقت