دلِ محزوں میں یاد ِ مصطؐفےٰ ہے

دلِ محزوں میں یاد ِ مصطؐفےٰ ہے

اندھیرے میں اک چراغ جل رہا ہے


ملا ہے مرسلِؐ رحمت کا داماں

غمِ دوراں سے اب کیا واسطا ہے


سفینے کو نہیں کچھ خوفِ طوفاں

پناہِ سرورِؐ دیں میں چلا ہے


ہیں اس کے نام کی نسبت پہ نازاں

جو ساری اُمتّوں کا رہنما ہے


جو اسرارِ الہیٰ کا ہے محرم

وہی جو تاجدارِ انبیا ہے


ازل سے جس کی عظمت ہے مسلّم

ابد تک کے لیے جو پیشوا ہے


تصرف میں ہے جس کے ذہنِ عالم

جو قلب و روح کا فرمانروا ہے


کیاہے نعت میں دیوان تائبؔ

مری بخشش کا ساماں ہوگیا ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

کعبہ سیاہ پوش ہے کس کے فراق میں

اُمَّتان و سیاہ کاریْہا

پاک نبی دے ناں دا سکہ دو عالم وچ چلدا رہنا

ساقی کوثر ترا ہے جام و مینا نور کا

وہی ہے باعثِ تخلیقِ ہستئ عالم

آپؐ کا نامِ نامی ہے وردِ زباں

مظلوم کا بے کس کا پریشاں کا تحفظ

رسائی ہے مِری اس آستاں تک

حضور انور حبیب داور مدینے والا مدینے والا

مدینہ نور و نکہت کا خزانہ