دل میں عشقِ مصطفی کا رنگ بستا جائے ہے
ابرِ رحمت ہے کہ ہر دھڑکن برستا جائے ہے
عاشقوں کے ہر تصور میں بسے ہیں مصطفیٰ
دیوبندی ان کی زیارت کو ترستا جائے ہے
وہ ہیں خوش قسمت کہ جن کو طیبہ جانا مل گیا
دوریوں کا درد میرے دل کو کستا جائے ہے
عشقِ احمد رب کا تحفہ ہے غلاموں کے لیے
بغضِ احمد ناگ ہے کافر کو ڈستا جائے ہے
ہم اسیروں کو نہیں آزاد رہنے کی طلب
جتنا پھنستا جائے دل اتنا ہی ہنستا جائے ہے
یوں تو ہوں سب کچھ مگر جب بک گئے کچھ بھی نہیں
دل کا یہ سودا ہے مہنگا آئے سستا جائے ہے
خاندانِ شاہِ برکت ہے نبی کا خانداں
ہاں ہاں مارہرہ سے ہی طیبہ کا رستہ جائے ہے
نظمی تُو بھی شعر کہہ لیتا ہے اچھے نعت میں
تیرے شعروں سے دلِ دشمن جھلستا جائے ہے
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا